ہم جس زمانے میں سانس لے رہے ہیں،
اس میں عداوت اسلام اور دین بیزاری کی اس
قدر سرانڈ ہے کہ دم گھٹنے لگتا ہے ۔ اسلام کے نام پر پرنٹ میڈیا
اور الیکٹرونک میڈیا میں پھیلی زہر ہلاہل ہے
جسے چندناعاقبت اندیش قند کہنے پر بہ ضد ہیں ۔مذہبی
اسکالرز کے بہروپ میں کچھ نام نہاد
دانشور ہیں، جو اسلام کے شجر سایہ دار کو بالکل جڑ سے اکھاڑ پھنکنے کی
قسم کھائے بیٹھے ہیں۔ ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل سے
مشکل ہوتا چلا جا رہا
ہے کہ کس کس کا جواب دیا جائے۔شہید اسلام مولانا محمد یوسف
لدھیانوی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں :
’’فتنوں کا ایک سیلاب ہے کہ
امنڈا چلا آرہا ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں جاکر رکے گا؟ رسائل
ہیں ،اخبارات ہیں ،ریسرچ کے انسٹی ٹیوٹ ہیں
،ثقافت کے ادارے ہیں ۔کہیں تعمیر نو کے نام پر تخریبِ
دین ہے ،کہیں عقائد اسلامیہ پر حملے ہیں ،کہیں
احکامِ شرعیہ سے انکار ہے،کہیں انکارِ سنت کا زور ہے ،کہیں تحریفِ
قرآن کا فتنہ ہے ، کہیں جوازِ سود وتحلیلِ خمر کے فتوے ہیں ،کہیں
رقص وسرود کو جائز کرنے کے لیے تحقیقات ہورہی ہیں ،کہیں
تعزیرات وحدود پر ہاتھ صاف کیا جارہا ہے، کہیں سلفِ صالحین
سے بدظن کرنے کی مذموم کوشش ہورہی ہے،کہیں اسلامی نظام کی
ناکامی کے دلائل پیش کیے جارہے ہیں ۔الغرض کہیں
مستشرقین مصروفِ عمل ہیں تو کہیں ملاحدہ وزنادقہ اسلام سے بر سر
پیکار ہیں ۔‘‘
(دورِ حاضر کے
تجدد پسندوں کے افکار ۔۔۔از مولانا یوسف لدھیانوی
شہید، ص:۳۷۳)
بعض مغربیت زدہ ’’محقق‘‘ ہیں
جو اصل معاملے کي تہہ تک جائے بغیر ہی فقہی اور فروعی ’’اختلاف‘‘کو’’افتراق‘‘کی
بھینٹ چڑھا دیتے ہیں اور مذکورہ اختلاف کو امت میں تفرقہ
بازی اور فرقہ واریت کے نام سے اچھالتے ہیں ۔راقم کے خیال میں امت مرحومہ میں
فرقہ واریت اور زوال وانحطاط کی عظیم داستانِ اَلَمْ انہی
کے افکار فاسدہ ونظریات باطلہ سے مربوط ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا
مبارک ارشاد ہے کہ:’’بنی اسرائیل ۷۲ فرقوں میں بٹ گئی اور میری امت ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی، سوائے ایک
کے سب کے سب جہنم میں جائیں گے ،عرض کیا گیا کہ یارسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ کون لوگ ہوں گے جو نجات پائیں گے ؟
اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ: جو لوگ اس راستے پر قائم رہیں گے جس پر میں ہوں اور میرے
صحابہ ہیں ۔ ‘‘( ترمذی،ج:۲، ص:۹۳بابُ افتراقِ هذہ
الأمۃ )
یہ تو سرورِ کائنات صلی
اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذی وقار ہے کہ مسائل کا حل میرے راستے
اور میرے صحابہ کے راستے پر چلنے میں ہے؛ لیکن ایک نظر
ادھر بھی فرمائیے،سرسید احمد خان رقم طراز ہیں :
’’یہ مسئلہ اسلام کا نہیں
ہے کہ مذہب اسلام میں تہتر فرقے ہیں اور ناجی ان میں سے ایک
ہی ہے یہ تو ایک موضوع روایت ہے جس کو اس زمانے کے لوگوں
نے ؛جب كہ مسلمانوں میں باہم مسائل فروعی میں اختلاف پڑا ،اپنی
تائید کے لیے بنا لی ۔اس روایت کا موضوع ہونا روایتاً
اور درایتاً محققین کے نزدیک ثابت ہے ۔‘‘ (تہذیب
الاخلاق از سرسید احمد خان،ص:۳۹۲ بحوالہ خود نوشت افکارِ سرسید احمد)
راقم پہلے عرض کر چکا ہے کہ بعض لوگ اپنی
کم فہمی اور کم علمی کی بنیاد پر آیت کریمہ ’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا
وَّ لاَ تَفَرَّقُوْا ‘‘(پ:۴،سورۃآل عمران آیت نمبر۱۰۳ ( وغیرہ کو مذکورہ فقہی اختلاف پر چسپاں کرتے ہیں
جو سراسر عقل ودیانت کے خلاف ہونے کے ساتھ دین اسلام اور روحِ اسلام
کے بھی بالکل منافی اور متصادم ہے ۔ذیل میں ہم چند
نظائر بیان کرتے ہیں کہ باہم
جزوی اور فروعی مسائل میں عہدِ نبوی میں بھی
اختلاف رہا اور عہدِ صحابہ میں بھی اسی سلسلے کی کڑیاں
حضراتِ تابعین اور ائمۂ متبوعین تک چلتی رہیں ۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب
المغازی میں ایک روایت ذکر کی ہے ’’لاَ يُصَلِّيَنَّ اَحَدٌ العَصْرَ إلاَّ فِيْ
بَنِيْ قُرَيْظَةَ‘‘ (بخاری ،محمد بن اسماعیل البخاری
؛ کتاب المغازی، ج:۲،ص:۵۱۹) تم ميں سے هر آدمي نماز عصر بنوقريظه هي ميں
پڑھے!مگر ہوا کچھ یوں کہ بعض صحابهٔ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین
نے بنی قریظہ پہنچنے سے قبل ہی نماز عصر اس وجہ سے پڑھ لی
کہ وقت بالکل ختم ہونے والا تھا اور ان کو یہ خوف دامن گیر ہوا كہ کہیں
نماز کا وقت ہی ختم نہ ہوجائے اورقضا ء نہ ہوجائے، ان حضرات نے فرمان نبوی لایصلین احد
العصر الا فی بنی قریظۃ
میں یہ اجتہاد کیا کہ جلدی پہنچنا ہے یعنی نماز عصر تک وہاں ضرور پہنچنا ہے ۔اس حکم
کا تعلق ادائے صلوۃ سے نہیں؛ بلکہ جلد پہنچنے سے ہے، اب چونکہ وقت ختم
ہورہا ہے اور نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنا بھی ضروری ہے؛ اس لیے
نماز کو ادا کر لیا؛ جبکہ دوسرے فریق نے الفاظِ حدیث سے یہی
سمجھا کہ اس کے ظاہر پر عمل ضروری ہے؛ چنانچہ انہوں نے بنی قریظہ
پہنچ کر ہی نماز عصر ادا فرمائی ۔اس امر کی اطلاع جب پیغمبر
دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تو آپ نے کسي کو غلط
قرار نہیں دیا ۔
بدر کا معرکہ بپا ہوا۱۴ شیر دل جوان اسلام کے گلشن کو اپنے خون سے سینچ کر
قاضی اجل کے فیصلے پر لبیک کہہ گئے ،ادھر کفار کو بھی سخت
ہزیمت کا سامنا ہوا۷۰دشمنان اسلام کے خون سے زمین نے اپنے غصے کی آگ
بجھائی،کفار کے تقریبا۷۰ افراد کو جنگی قیدی
بنالیا گیا ۔اب معاملہ پیش آیا کہ ان قیدیوں
کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟ اس وقت
صحابۂ کرامؓ کی مختلف آرا سامنے آئیں ۔سیدنا
عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اس جانب کو ترجیح دیتے تھے کہ ان قیدیوں
کو قتل کردیا جائے؛ جبکہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی
رائے یہ تھی کہ ان سے فدیہ لے کر انھيں چھوڑ دیا جائے ۔ (التفسیر الکبیر للرازی،ج:۱۵،ص:۱۹۷)
چونکہ اس وقت ہمارے پیش نظر فقط
باہم فروعی اور جزوی مسائل میں وقوعِ اختلاف کا پس منظربیان
کرنا ہے؛ اس لیے ہم صرف اپنے استشہادات ہی نقل کریں گے ۔
زمانۂ نبوی صلی اللہ
علیہ وسلم میں صحابۂ کرام کے باہمی اختلافات کتبِ حدیث
اورکتبِ سیر وتاریخ میں بہ کثرت ملتے ہیں ؛حتی کہ
صحابۂ کرامؓ کا بعض امور میں نبیِ کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کی رائے کے
موافق رائے نہ دینا بھی آیات وآثار سے مفہوم ہوتا ہے۔مثلاً
:منافق کے جنازہ نہ پڑھانے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ عرض کرنا
کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس منافق کا جنازہ مت پڑھائیے
۔ (التفسیر الکبیر،ج:۱۶،ص:۱۵۲تحت
آیۃ لاتقم علی قبرہ)
قارئین! یقین جانیے جب دل میں خوفِ خدا ہو معاملہ نیک
نیتی پر مبنی ہو،
اختلاف کا سبب امرِ اجتہادی ہواور اختلاف کرنے والے ماہرینِ شریعت
ہوں تو ان سے صادر شدہ اختلاف کو رحمت کہا جائيگا، ہاں! اگر شرائط ِمذکورہ کا فقدان ہوتو پھر یہی
اختلاف؛ افتراق کا زینہ بن جاتا ہے۔
آمدم
برسر مطلب : سرورِ کائنات صلی
اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرما ہونے کے بعد آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے مقامِ دفن پر بھی صحابۂ کرامؓ کی
آراء میں اختلاف ہوا، الطبقات الکبری میں امام ابن سعدؒ
نے اس مقام کوبڑے هي بسط وتفصیل کے ساتھ ذکرفرمایا ہے۔(الطبقات
الکبری لابن سعد،ج:۲،ص:۲۹۲)
اس کے بعد خلیفۃ المسلمین
اور جانشینِ پیغمبر کے انتخاب کا وقت آیا تو اب کی بار بھی
صحابہؓ میں اختلاف رائے ہوا، کافی بحث وتمحیص کے بعد یہ
طے پایا کہ خلیفہ بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ ہوں گے ۔(تاریخ الخلفاء للسیوطی،ص:۵۲)
اسی اثنا میں فتنۂ
مانعین زکوۃ رونما ہوا ۔سیدنا
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کي رائے یہ تھی کہ مانعینِ
زکوۃ سے قتال کیا جائے؛ جبکہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے
اپنی رائے کا اظہار کیاجو سیدنا صدیقِ اکبر رضی
اللہ عنہ کی رائے سے مختلف تھی ۔فتنۂ مانعینِ زکوۃ
اور صحابۂ کرامؓ کے علمی اختلاف کی وجوہات کو امام ابن
کثیر نے البدایہ والنهایہ میں بالتفصیل لکھ دیا
ہے ۔
(البدایہ
والنهایہ لابن کثیر،ج:۶،ص:۳۱۵)
فتنۂ مانعینِ زکوۃ
کا سر سیدنا صدیق اکبرؓ کی دلیری اور جواںمردی
نے دیگر صحابۂ کرامؓ کے تعاون سے جب کچل ڈالا، تو حضرت عمر رضی
اللہ عنہ نے خلیفۃ المسلمین سیدنا صدیق اکبر رضی
اللہ عنہ سے بصد احترام التماس کیا کہ اسلام روز افزوں ترقی کی
شاه راہ پر گامزن ہے؛ اس لیے بلاد عرب سے نکل کر سارے عالم میں جانے
لگا ہے، میری تجویز یہ ہے کہ قرآن کریم کو یکجا
جمع کردیا جائے۔ اولاً جناب صدیق اکبرؓ نے یہ کہا
کہ: جوکام نبی نے نہیں کیا، ابو بکر اُسے كيسے كرسكتا هے؟ لیکن
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بار بار اصرار پر جناب صدیق اکبرؓ کو
اس معاملے میں انشراح ہو گیا۔
(صحیح
البخاری،ج:۲،ص:۷۴۵باب جمع القرآن)
فقہی اختلاف
کی قرآنی شہادت :
قرآنِ کریم میں دو جلیل
القدر انبیاء حضرت داود اور حضرت سلیمان علیہما السلام کا تذکرہ
موجود ہے، جن کے مابین فروعی اختلاف ہوا، جسےاوراقِ قرآنیہ نے
آج تلک اپنے سینے میں محفوظ رکھا ہوا ہے۔(پ۱۷،سورۃ الانبیاءآیت۷۸)
لسانِ نبوت سے
ماجور ہونے کی شہادت :
اس میں کوئی سچا اور کوئی جھوٹا والا معاملہ نہیں
ہوتا؛ بلکہ به موجبِ حدیث اگر مجتہد صحیح اور درست بات تک رسائی
حاصل کر لے تو ’’فَلَہٗ
أجْرَانِ‘‘ اور اگر اس میں
اس کو خطا بھی ہوجائے تب بھی اس مخطی کو گناہ وعقاب وعتاب نہیں؛
بلکہ فلہ اجر کا وعدہ اوراعزاز بخشا گیا
ہے۔
(صحیح
البخاری،ج:۲،ص:۱۰۹۲، صحیح مسلم،ج:۲،ص:۷۶)
مذکورہ بالا حقائق جاننے کے بعد قارئین
پر یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہوگی کہ ہراختلاف مذموم نہیں؛ بلکہ اختلاف محمود
بھی ہوتا ہے ۔ امام عبدالقادر بن طاہر البغدادیؒ نے فرمایا
كہ اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقہاء کے اختلاف کو مذموم نہیں
کہا؛ کیونکہ یہ اصولِ دین میں متفق ہیں۔
(الفرق بین
الفرق،ص:۶)
بلکہ علامہ شاطبی رحمہ اللہ نے
’الاعتصام ‘‘میں لکھا ہے کہ فَاِخْتِلَافُهُمْ فِي الْفُرُوْعِ كَاِتِّفَاقِهِمْ فِيْهَا، ان کا اختلاف ان کے
اتفاق کے مثل ہے ۔(الاعتصام،ج:۲،ص:۱۶۹)
قارئینِ کرام: مقصد ان واقعات کا مکمل احصا ءنہیں؛ بلکہ
ایسے چند نظائر کو سامنے لانا تھا، جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ یہ
اختلاف عہدِ نبوی سے موجود ہے؛ بلکہ اس اختلاف پر عہدِ نبوی ہی
سے ماجور ہونے کا سہرا سجا ہوا ہے؛ اس لیے فقہاء کرام امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ ،امام
مالک رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا
باہم دلائل کی بنیاد پر کسی بھی جزوی اور فروعی
مسئلے میں مختلف رائے رکھنا ہر گز فرقہ واریت نہیں؛ بلکہ انہی
ائمہ اربعہ میں منحصر رہنے سےہی فتنوں سے بچا جا سکتا ہے ۔(عقدالجید،
از: شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ )
اگر ہر شخص کو اختیار ہو کہ مسائلِ غیر
منصوصہ میں جو چاہےاپنی رائے قائم کر لے تو بتلائیےیہ دینِ
متین کھلونا بنے گا یا نہیں؟
ہر فردِ بشر اپنی عقلِ نارسا
کو حرفِ آخر گرداننے لگے گا اور اسی کے مطابق عمل کرے گا، اس مضحکہ خیز صورتِ حال پر سوائے ہنگامہ آرائی کے اور
کیا ہوگا؟
ا س حقیقت کو تسلیم کر لینے
سے مسلمانوں کا باہمی جدل وانتشار اور غلط فہمیاں بجائے خود دم توڑ دیتی
ہیں؛ بلکہ شکوک وشبہات اور وساوس وتحفظات کا بھی ازالہ ہوجاتا ہے؛ لیکن
جب حقائق سے منہ موڑ لیا جائے اور اپنی تمام تر توانیاں اس بات
پر صرف کرنے کی کوشش کی جائے کہ اختلاف۔۔۔۔۔حتی
کہ ماہرین شریعت فقہاء کا باہم فروعی اورجزوی اختلاف ۔۔۔۔۔امت
میں افتراق کا سبب ہے تو ایسی سرگرمیوں کے نتائج اس سے
مختلف نہیں ہوسکتے، جن کا آج ہم کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں
۔
اہلِ ھوٰی کا ہر دور میں
یہ وسوسہ رہا ہے، اجتہاد کی کوئی ضرورت اور اہمیت نہیں؛
بلکہ فقہ من گھڑت اورفرضی دین
ہے ۔آخر یہ نادان لوگ کیوں
نہیں سمجھ پا رہے ہيں کہ معاشرے میں انتشار، انارکی، فساد ،فرقہ
واریت ،دین بیزاری کے مہلک جُرثومے اسی مسموم چشمے
کی پیداوار ہیں۔ آج بھی اگر اس کی جگہ محبت
وخلوص کا چشمۂ صافی چل پڑے تو ان کے قلوب میں رچی بسی
فریب خوردگی کے خس وخاشاک کو بہا کر لے جائے ۔
***
-------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 5 ،
جلد: 96 ، جمادی الثانیہ 1433 ہجری مطابق مئی 2012ء